واشنگٹن اور بیجنگ پُرامید ہیں کہ دونوں ممالک میں جاری تجارتی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ جلد ہی منظرعام پر آ سکتا ہے، تاہم دو بڑی عالمی طاقتوں کے مابین یہ لڑائی تجارت سے کہیں آگے کی بات ہے اور اس کا محور تجارت کے علاوہ معاشیات، دفاع، ثقافت اور ٹیکنالوجی بھی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ چین سے چاہتا کیا ہے اور اس کا اصل ہدف کیا ہے؟
اس کا سادہ سا جواب تو وہ تجارتی معاہدہ ہے جس پر گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ اور چین کے نائب وزیر اعظم لیو ای کا اوول آفس میں اتفاق ہوا تھا۔
تاہم دونوں ممالک میں جاری کشیدگی تجارت سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ میں نے واشنگٹن میں جتنے لوگوں سے بھی اس حوالے سے بات کی وہ متفق ہیں کہ اوول آفس میں گذشتہ ماہ ہونے والا معاہدہ کچھ زیادہ فرق نہیں ڈالے گا۔
یہ بھی پڑھیے
حالیہ برسوں میں امریکہ کے چین کے حوالے سے رویے میں واضح طور پر منفی تبدیلی آئی ہے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ تبدیلی صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد کے ساتھ ہی آ گئی تھی۔
امریکی محکمہ دفاع کے سابق اہلکار ڈینیئل کلیمن کا کہنا ہے کہ اگر سنہ 2016 میں ہیلری کلنٹن یا کسی اور ڈیموکریٹ یا ریپبلیکن کو صدارت ملتی تو بھی چین کی حوالے سے ایسی ہی پالیسی نظر آتی۔
ڈاکٹر کلیمن ’سینٹر فار نیو امریکن سکیورٹی‘ میں ایشیا پیسیفک سکیورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'امریکہ میں یہ احساس پایا جا رہا تھا کہ چین کے حوالے سے ہماری پالیسی کام نہیں کر رہی۔'
دونوں ممالک میں جاری تجارتی کشیدگی میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
سنہ 2001 سے سنہ 2018 کے دوران امریکی حکومت کے لیے معاشی تجزیہ کار کی حیثیت سے کام کرنے والے رے بوؤین کہتے ہیں کہ سنہ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کی شمولیت کے وقت کیے گئے معاشی فوائد کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ چین کا کبھی بھی قواعد و ضوابط کے تحت چلنے کا ارادہ نہیں تھا۔ چین کثیر الجہتی اتحاد میں اس لیے بھی شامل ہونا چاہتا تھا تاکہ یہ جان پائے کہ یہ اتحاد عالمی تجارت کو کس طرح منظم کرتا ہے۔
'دوسرے الفاظ میں چین اس اتحاد میں خود تبدیل ہونے کے بجائے اسے بدلنے کے ارادے سے شامل ہوا تھا۔'
اور اس کا نتیجہ امریکہ میں بیروزگاری اور کارخانوں کی بندش کی صورت میں نکلا جسے 'چائنا شاک' کا نام دیا گیا۔ خاص طور پر ان علاقوں کے لوگ زیادہ متاثر ہوئے جنھوں نے سنہ 2016 میں صدر ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔
بہت سی امریکی کمپنیوں نے مزدوری پر اٹھنے والے کم اخراجات کے پیشِ نظر اپنے کارخانے چین میں منتقل کر دیے۔ تاہم ڈینیئل کلیمن کے مطابق جو کمپنیاں چین منتقل ہوئی تھیں انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ 'ان کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی اور انٹلیکچوئل پراپرٹی چین کو منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا۔'
یہاں تک کہ وہ کمپنیاں جنھوں نے اپنے کارخانے چین منتقل نہیں کیے ان پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ ان کے تجارتی راز کسی نہ کسی طرح چین کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسے چینی افراد کی ایک طویل فہرست موجو ہے جو جاسوسی اور کمپیوٹر ہیکنگ میں ملوث ہیں۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کانگریس کو حال ہی میں مطلع کیا ہے کہ امریکیوں کی جانب سے تخلیقی حقوق یا انٹلیکچوئل پراپرٹی کی چوری سے متعلق شکایتوں کی بنیاد پر شروع کی گئی ایک ہزار سے زائد تفتیشیں اس وقت زیر التوا ہیں جن کا سِرا جا کر چین سے ملتا ہے۔
امریکی حکومت کے مطابق چین کی جانب سے گذشتہ چار برسوں میں چوری ہونے والی انٹلیکچوئل پراپرٹی کی مالیت 1.2 ٹریلین ڈالر تک ہے۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ڈین چینگ کے مطابق امریکہ اور چین کے تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب کمپنیوں کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی رجسٹر شدہ مصنوعات چوری ہو رہی ہیں اور ان کے تجارتی راز ہائی جیک ہو رہے ہیں تو ان کمپنیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چین کے ساتھ شراکت داری منافع بخش نہیں رہی بلکہ در حقیقت اس کے منفی اثرات ہوئے۔
رے بوؤن کے مطابق سنہ 2015 کے آواخر میں موڈ بدل چکا تھا، جو لوگ پہلے چین کے ساتھ شراکت داری کے حق میں بات کرتے تھے اب وہ بھی گھبرا چکے تھے کہ کس تیزی سے چین ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے رہا تھا۔
اسی اثنا میں پینٹاگون میں بریگیڈئیر جنرل رابرٹ سپالڈنگ اس ٹیم کے سربراہ تھے جس کی ذمہ داری چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کی ایک نئی حکمت عملی ترتیب دینا تھا۔
اب وہ فوج کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور انھوں نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
جب ان سے اس خطرے کے متعلق پوچھا گیا جو امریکہ کو چین سے درپیش ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'جنگ عظیم دوئم میں نازی پارٹی کے بعد یہ امریکہ کے وجود کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ ہے۔'
'میرے خیال میں یہ سوویت یونین سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جس کی مغربی حکومتوں اور اداروں تک پہنچ ہے اور یہ بات سوویت یونین کی پہنچ سے بھی باہر تھی۔'
جنرل سپالڈنگ نے پینٹاگون میں ہوتے ہوئے جو کام کیا اس کے نتیجے میں قومی سلامتی کی ایک حکمت عملی بنی جو 2017 میں نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی کے عنوان سے شائع ہوئی۔
چائنا پاور پراجیکٹ کی سربراہ بونی گلیسنر کہتی ہیں کہ حکومتی حلقوں میں معتبر سمجھے جانے والے اس دستاویز کا مقصد ہر محمکے کی رہنمائی کرنا ہے اور یہ دستاویز امریکی حکمت عملی میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔
بونی گلیسنر کا کہنا ہے کہ امریکہ کے حکومتی حلقوں کی سوچ میں امریکہ کو درپیش خطرات کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جگہ اب بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان (معاشی) جنگ نے لے لی ہے۔‘
اس لیے اب امریکی محمکہ دفاع سمجھتا ہے کہ آنے والے عشروں میں امیرکہ کا ایک بڑا عسکری ہدف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے چین نے جس تیزی سے ساؤتھ چائنا کے پانیوں میں مصنوعی جزیرے تعمیر کیے اور وہاں فوج تعینات کی ہے، اس نے واشنگٹن میں بہت سے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ڈین چینگ کے بقول ہر سال ساؤتھ چائنا کے راستے پانچ اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر کا تجارتی مال گزرتا ہے۔ اس لحاظ سے ’چین کے اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ وہ کسی طرح خون کی اس بڑی شریان کو کاٹنے کے قابل ہو جائے جو عالمی تجارت میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔‘
اسی طرح روبوٹِکس اور مصنوعی ذہانت جیسی اہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جانے کی خواہش سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے عزائم کیا ہیں۔ بونی گلیسنر کہتی ہیں کہ ’یہ چیز اب اس مقابلے بازی میں بنیادی حیثیت اختیار کر چکی ہے، کیونکہ اگر چین ان شعبوں میں امریکہ سے آگے نکل جاتا ہے تو وہ شاید امریکہ کو پیچھے ہٹا کر خود دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔‘
اور یہی وہ چیز ہے جو اب داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
امریکہ کی عسکری برتری کی بنیاد بہت بڑی فوج نہیں بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار اور انھیں استعمال کرنے والے سِسٹم ہیں۔ اگر چین اس قسم کی اہم ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری حاصل کر لیتا ہے تو ہو سکتا ہے امریکہ زیادہ عرصے تک اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔
تاہم، ڈاکٹر کلیمن سمجھتے ہیں کہ غیر عسکری ٹیکنالوجی کا میدان بھی نہایت اہم ہے۔ ’چین نہ صرف ملک کے اندر نگرانی (سرویلینس) اور سینسرشِپ والی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر رہا ہے بلکہ ایسی ٹیکنالوجی کو برآمد بھی کر رہا اور اس حوالے سے دوسرے ملکوں کی مالی مدد بھی کر رہا ہے۔‘
ڈاکٹر کلیمن کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں چین کے بارے میں بحث میں جو چیز مرکزی بن جائے گی وہ ہائی ٹیک کے میدان میں اس کا غیر جمہوری رویہ یا استبداد ہوگا۔
اس لیے اگر صدر ٹرمپ آئندہ انتخابات میں ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو یہ توقع نہ رکھیں کہ مستقبل قریب میں چین سے متعلق امریکہ کی پالیسی تبدیل ہو جائے گی۔ واشگنٹن میں مُوڈ بدل چکا ہے۔
اب بات یہ نہیں رہی کہ چین کو آڑے ہاتھوں لینا ہے یا نہیں، بلکہ بحث یہ ہے کہ یہ کام کرنا کیسے ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے بہت سے رہنما، صدر ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسی کے برعکس، امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم زیادہ تر ڈیموکریٹ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ان کی جماعت چین کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتی ہے تو پارٹی کو ووٹ بھی کم ہی ملیں گے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔