کیا آپ نے کبھی کسی پبلک پوائنٹ پر یا بس میں یا کسی بھی جگہ کسی بچے کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ کھڑے ہو جائیں آپ بڑے ہیں اور یہ سیٹ مجھے دے دیجیے کیونکہ میں چھوٹا اور کمزورہوں؟ یا یہ کہ، مجھے گود میں نہیں بیٹھنا مجھے ایک علیحدہ سیٹ چاہیے؟ ہمارا سماج بہت سارے دوسرے سماجوں کی طرح جنس پرستی، نسل پرستی کے ساتھ ساتھ عمر پرستی کا بھی بری طرح شکار ہے۔ جس طرح ہم نے عورت کو نظر انداز کیا ہے، بالکل اسی طرح بچہ بھی کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے۔ عمر پرستی کا مطلب ہے، چونکہ میں تم سے عمر میں بڑا ہوں تو میری عزت کرنا تمہارا فرض ہے اور عزت بھی ایسی ویسی نہیں، وہ عزت جس میں ”جی حضوری“ شامل ہو۔ جب تک جی حضوری ہے بچہ بہت اچھا بچہ ہے۔ لیکن بچے نے اگر اپنی رائے کا اظہار کردیا تو وہ سیدھا سیدھا بدتمیزی کے زمرے میں شامل ہو گیا۔
بچہ حساس طبیعت کا حامل ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی شروعاتی سماجی زندگی کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ شروعاتی مرحلے کو سماجیات کی زبان میں anticipatory socialisation کہتے ہیں، جس میں بچہ ارد گرد کے ماحول کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ، اپنے اس شروعاتی دور میں بچہ لفظوں سے زیادہ حرکت پہ توجہ دیتا ہے۔ وہ قول سے کم عمل سے زیادہ متاثر ہورہا ہوتا ہے۔ آپ بچے کے سامنے جتنی بھی تقریریں کرلیں لیکن اس کو سمجھ صرف آپ کا رویہ آتا ہے۔ مطلب بچے کا ماحول اور اس کے ساتھ برتاؤ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور یہی سمجھ پوری زندگی اسے کے ساتھ رہنے والی ہوتی ہے۔ بڑا ہو کر وہ کیسے چیزوں کو دیکھتا ہے، کیسے وہ کسی نتیجے تک پہنچتا ہے، ان ساری باتوں میں شروعاتی سمجھ اور تجربہ و مشاہدہ بہت اہم کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔
یہ جو اوپر حساس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ردعمل جلد دیکھتا ہے اور یہ ردعمل اپنے آپ میں بدلاؤ کی شکل میں ظاہر کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اب یہ بدلاؤ کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ اصل میں بچہ survival کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے اور یہ جنگ سماجی ہوتی ہے۔ آسان بھاشا میں یوں کہہ لیں بچہ اپنے آپ کو سماج کے طور طریقوں میں ڈھالنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ جس طرح کا بچے کو ماحول ملتا ہے، اس کی شخصیت بھی اسی کا عکس ہوتی ہے۔
چلیں مان لیجیے، سیکس ایجوکیشن ہماری تہذیب کے خلاف ہے، گُڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ پر بھی مٹی پاؤ، لیکن اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ جب خود بچے کو لگے کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے تو وہ احتجاج کرنے کے لائق ہو۔ ایک علاقے میں دو سو سے زیادہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے تو ہمیں مغرب کی تہذیب سے آئے ہوئے ٹی وی اور کمپیوٹر یاد آجاتے ہیں اور دو منٹ میں ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سارا کا سارا مغرب کا گند ہے جو ہمارے پاک سماج کو خراب کررہا ہے۔
ہوش سے کام لینا اتنی بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے اور اپنے فائدے کا سوچنا کچھ ایسی بڑی قیامت بھی نہیں ہے۔ اگر بچے انسان خود پیدا کر رہا ہے تو اس کی باقی نفسیاتی اور سماجی ضروریات پڑوسی پورا نہیں کریں گے۔ بچے کی ایک اہم ضرورت اس کا اعتماد ہے اور اس کو اعتماد دینا بھی بچے پیدا کرنے والوں کا ہی کام ہے۔ خدارا، اپنے حساس بچوں پر رحم کریں، اُن کی تربیت ضرور کریں لیکن بہت زیادہ تربیت کر کے اُن کی انفرادیت اور خود اعتمادی کو اُن سے مت چھینیے!