کہتے ہیں کہ اگر عورت بالوں کا سٹائل بدل لے تو یقیناً اُس کی زندگی میں کچھ بڑا یا اہم ہو رہا ہوتا ہے۔
سنہ 2013 میں مشیل ناتالمی کے لیے وہ لمحہ افسوسناک ثابت ہوا جب اُن کے والد کینسر کی وجہ سے شدید بیمار ہو گئے۔ کیموتھراپی کی وجہ سے جب اُن کے والد کے تمام بال گِر گئے تو مشیل نے والد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر اپنے سر کے بال بھی منڈوا دیے۔
مشیل، جو اب 35 برس کی ہیں، نے عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ اپنی زندگی زیادہ صحت مند اور فطری انداز میں گزاریں گی تاکہ مستقبل میں وہ اس بیماری (کینسر) سے محفوظ رہ سکیں۔
جب ان کے بال واپس آ گئے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ اپنے بالوں پر کسی قسم کے کیمیکل نہیں لگوائیں گی جیسا کہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی کی زیادہ تر خواتین اپنے بال سیدھے کروانے کے لیے کرتی تھیں۔ انھوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ بالوں کی دیکھ بھال کے لیے قدرتی اشیا سے بنی مصنوعات استعمال کریں گی۔
یہ بھی پڑھیے
مگر بدقسمتی سے اُس وقت کینیا میں یہ اشیا دستیاب نہیں تھیں، اس لیے مشیل نے یہ مصنوعات امریکہ اور یورپ سے منگوانا شروع کیں۔
درآمد شدہ مصنوعات چونکہ بہت مہنگی پڑتی تھیں اس لیے انھوں نے اپنے شیمپو، کنڈیشنر اور دوسری مصنوعات خود ہی اپنے غسل خانے میں بنانا شروع کر دیں۔ انھوں نے ان مصنوعات میں ایووکاڈو (ناشپاتی کی شکل کا شیرہ دار پھل)، انڈے، عرقِ گلاب اور ایلو ویرا کا استعمال کیا۔
مشیل کا کہنا تھا کہ جب میں نے اپنی تیار کردہ مصنوعات دوستوں کو استعمال کرنے کے لیے دیں تو انھیں یہ بہت پسند آئیں اور یہی وہ موقع تھا جب مشیل کو احساس ہوا کہ قدرتی اجزا سے بنی مصنوعات کی فروخت ایک اچھا کاروبار بن سکتا ہے۔
آج اُن کی نیروبی سے چلنے والی کمپنی ’مرینی نیچرل‘ ان مصنوعات کی 50 ہزار بوتلیں ہر مہینے دنیا کے 12 مختلف ممالک میں فروخت کرتی ہے۔ ان 12 ممالک میں افریقہ کے دس ممالک کے علاوہ ترکی اور فرانس شامل ہیں۔
مشیل کے والد کا سنہ 2014 میں انتقال ہوا۔ وہ بذاتِ خود ایک کاروباری شخصیت تھے جبکہ مشیل کی والدہ اقوام متحدہ کے لیے کام کرتی تھیں۔
سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مشیل نے یونیورسٹی آف نیروبی سے ڈیزائن اور کمیونیکیشنز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اٹلی چلی گئیں جہاں سے انھوں نے انٹیریئر ڈیزائن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس کینیا آ گئیں اور ایک آئی ٹی کمپنی میں نوکری کر لی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کیا۔
مشیل کہتی ہیں کہ ان کے والدین نے بچپن ہی سے ان کو محنت کی اہمیت کا احساس دلایا۔
چند نوکریاں کرنے کے بعد انھوں نے اپنی ایک سہیلی نیاتی پٹیل کے ساتھ مل کر ایک برینڈنگ ایجنسی شروع کی۔ اس کے بعد دونوں سہیلیوں نے مل کر اپنی کمپنی ’مرینی‘ کا آغاز کیا۔
اس کاروبار کے آغاز پر ہی انھیں احساس ہوا کہ کینیا کی خواتین کو بال سیدھے کرنے والی کیمیکل مصنوعات کے استعمال سے ہٹانا آسان نہ ہو گا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ افریقہ میں مارکیٹ ابھی ایسی قدرتی اشیا سے بنی مصنوعات کے لیے تیار نہیں ہے۔
مگر اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے یوٹیوب پر ویڈیوز پوسٹ کرنا شروع کیں۔ انھوں نے 30 ماڈلز کی مدد سے بالوں کے 50 نئے سٹائل متعارف کروائے، جو ان کی کمپنی کی مصنوعات استعمال کر کے بنائے گئے تھے۔
ان کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی، یوٹیوب کی ویڈیوز اُن کی مارکیٹنگ کا اہم حصہ بنیں۔ ان کی مصنوعات کی فروخت اس لیے بھی بڑھی کیونکہ مشیل یہ کہہ سکتی تھیں کہ ان کی مصنوعات میں شامل ناریل کا تیل کینیا، شیا بٹر یوگینڈا اور خوشبو ساؤتھ افریقہ سے آتی ہے، یعنی تمام بنیادی اجزا قدرتی ہیں جو مختلف افریقی ممالک میں دستیاب ہیں۔
مشیل کہتی ہیں انھیں افسوس ہے کہ ان کی مصنوعات میں استعمال ہونے والی بوتلیں اور ٹب چین سے آتے ہیں کیونکہ افریقہ میں اچھی کوالٹی کی بوتلیں دستیاب نہیں ہیں۔
ان کی مصنوعات پہلے ہی افریقہ اور اس سے باہر فرانس اور ترکی میں فروخت ہو رہی ہیں اور اب وہ اپنی مصنوعات کو امریکہ اور دیگر یورپی ممالک تک پہنچانا چاہتی ہیں۔
کامیابی انھیں اپنے والد کی یاد دلاتی ہے۔ میشل کہتی ہیں کہ شاید ’مرینی نیچرل‘ ان (والد) کی طرف سے میرے لیے ایک تحفہ ہے۔