محترم خالد سہیل
السلام علیکم،
السلام علیکم،
میرا آپ کا تعارف صرف ’ہم سب‘ کی وساطت سے ہے۔ میرے اور آپ کے استاد محترم وجاہت مسعود کا کہنا ہے ”ہم عصر کی تعریف ذرا مشکل ہوتی ہے۔ چشمک کا پہلو موجود نہیں ہو تب بھی خود آرائی آڑے آتی ہے“۔ لیکن میں چوں کہ آپ کا ایک لحاظ سے ہم عصر نہیں بلکہ بہت چھوٹا ہوں (عمر نہیں قد، اور قد بھی جسمانی نہیں بلکہ ادبی قد) اس لئے مجھے یہ کہنا بہت مناسب لگتا ہے کہ آپ جو لکھ رہے ہیں، اس کی تعریف کیے بنا چارہ نہیں۔ آپ کا گزشتہ کالم ”کیا آپ جنسیات کی نفسیات سے واقف ہیں“؟ پڑھا۔ آپ جنسیات پر کھل کر لکھتے ہیں اور نفسیات کے ڈاکٹر ہیں۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ یہ ساتھ خوب نباہ رہے ہیں اور اگر دامن اٹھاتے ہیں تو چولی بھی اتار دیتے ہیں۔ یہی اس موضوع کا تقاضا ہے کہ تمام پردے ہٹا دیے جائیں تا کہ انسان اپنی زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے صحیح طریقے سے اور پورا پورا لطف اندوز ہو سکے۔
گھنڈ حسن دی آب چھپا لیندا، لمے گھنڈ والی رڑے ماریے نی
(رڑے، سخت زمین۔ لمے، لمبے )
(رڑے، سخت زمین۔ لمے، لمبے )
میرے ذہن میں اس موضوع پر بہت سے سوالا ت ابھر تے ہیں۔ معذرت خواہ ہوں، کہ سوال تو چھوٹے ہی ہیں لیکن اپنے سوالات کو واضح کرنے کے لئے پہلے کچھ مثالیں دوں گا۔
جنسی خواہش ہر انسان کی سوچ، جذبا ت اور اس کے رویوں کے پیچھے پائی جانے والی مرکزی قوت ہے۔ آپ کے اس کالم کا ایک فقر ہ مستعار لینا چاہوں گا، جو میری بات کو آگے بڑھا نے میں مددگار ہو گا۔
”لوگ جب جوان ہوتے ہیں تو ان کی خواہش، ان کی آرزو اور ان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ شادی کریں، بچے پیدا کریں، ایک خاندان بنائیں اور افزائش نسل کا سلسلہ جاری رکھیں“۔ یہ تو ہو گئی شادی کی ایک وجہ، آگے چل کر آپ لکھتے ہیں کہ ”تخلیقی لوگ اپنی جنسی خواہشات کا غیر روایتی اظہار کرتے ہیں۔ چاہیں تو کئی لوگوں سے بیک وقت تعلق قائم کر لیتے ہیں، نا چاہیں تو مدتوں کسی ایک سے بھی تعلق قائم نہیں کرتے۔ اور جب رومانی تعلق قائم کریں، تو اس کا مقصد لازمی نہیں کہ شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہو“۔
بہت واضح ہو گیا کہ جنس کا اکلوتا مقصد بچے پیدا کرنا ہی نہیں ہے۔ میرا سوال صرف شادی کے ذریعے جنسی خواہش کی تکمیل کے متعلق ہے۔ بیک وقت ایک یا ایک سے زائد کے ساتھ جنسی تعلق سے ہے۔
اگر ہم پرانی تہذیبوں کو دیکھیں تو ان کام یاب ادوار میں ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر شادی کی مختلف قسمیں کام یابی سے اس معاشرہ کی ضروریات پوری کرتی نظر آتی ہیں۔ جب دنیا میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا، اس وقت روم کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی کنیز رکھنے کی اجازت تھی اور مالک کے ساتھ اس کانام ایسا جڑا ہوا تھا کہ اس کی قبر پر دونوں نام لکھے جا تے تھے۔ بعد میں جب روم کا مذہب تبدیل ہوا تو یہی رواج مسیحیت نے اپنا لیا۔
بہت پہلے سے لے کر آج تک ہندوؤں میں کبھی ایک سے زائد شادی کو پسند نہیں کیا گیا۔ ہند میں راجھستان سے لے کر نیپال تک اور کٹاس سے لے کر آسام تک مختلف علاقوں میں ایک ہی عورت سے تمام بھائیوں کی شادی کا رواج رہا ہے۔ نیپال میں اس قسم کی شادی آج بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ زمین کو تقسیم سے بچانا تھا یا ہے۔ کزن کے ساتھ شادی کا ایک مقصد بھی یہ رہا ہے۔ لیکن عرب جو کہ ایک قبائلی علاقہ تھا، کے کچھ علاقوں میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی رہی ہیں۔ جب ایک خاوند اندر لطف اندوز ہو رہا ہوتا تو وہ باہر دروازے پر اپنا خنجر گاڑ دیتا کہ اگر کسی دوسرے میں ہمت ہے تو رنگ میں بھنگ ڈالنے، اپنا انجام سوچ کر، اندر آ جائے۔
انھی معاشروں میں جہاں ایک ہی عور ت سے پانچ بھائیوں کی شادی کی مثال ملتی ہے، وہیں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے اکبر اعظم کے ایک رتن راجا مان سنگھ کا دعویٰ تھا کہ اس کے گھر میں بیس پنگھوڑے ہیں، جو کبھی بھی خالی نہیں ہوئے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے لکھا ہے، ”جب وہ مرا تو اس کے ساتھ تین ہزار عورتیں ستی ہوئیں۔ یہی مردوں کی شان ہوتی ہے (مان سنگھ کی بہن مریم الزمانی اکبر کی بیوی اور اس کی بیٹی جہانگیر کی بیوی تھی) ۔
وہی راج پوت نسل کی ملکہ جو نور جہاں کی دوسری شادی کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں کرتی، جو اسے زچ کر دیتی تھیں۔ ایک مرتبہ نور جہاں نے خوشامدانہ لہجے میں بادشاہ کو کہا، ”آپ کے منہ سے بہت پیاری خوش بو آتی ہے“۔ بادشاہ نے خوشی خوشی یہ بات ہندو رانی کو بتائی، تو اس کا جواب تھا، ”منہ کی بد بو، خوش بو کا اندازہ اس کو ہو گا، جس نے ایک سے زیادہ منہ سونگھے ہوں“۔ باپ کا فخر تین ہزار سے زائد شادیاں، اور بیٹی کا بیوگی کے بعد بھی دوسری شادی پر طنز۔
زرعی اور قبائلی علاقوں میں زیادہ شادیوں کی ایک وجہ زیادہ اولاد کی خواہش ہے۔ اتنی اولاد جو لڑائی جھگڑے میں مدد گار ہو۔ یہ خواہش پہلے بیان کی گئی خواہش سے بالکل الٹ ہے۔
اسی طرح کی مثالیں ہر دور کی تہذیبوں میں مل جاتی ہیں۔ ہوموسیپینز، سیپینز کی پیدائش افریقہ میں ہوئی اور لاکھوں سال تک وہ اسی علاقہ میں رہا۔ آج بھی جسمانی لحاظ سے سب سے بہترین انسان اسی علاقے کے ہیں۔ افریقہ میں شادیوں کے بہت عجیب و غریب رواج پائے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے ملک ملاوی میں ہر کنواری لڑکی کو شادی سے پہلے ایک ’ہائینہ‘ مرد سے قربت کرنی پڑتی ہے اور ہر عورت کو طلاق، بیوگی، بچے کی پیدائش اور ابارشن کے بعد اسی کے پاس جاکر ’حلالہ‘ کروانا پڑتا ہے۔ اور اس کام کا اسے معاوضہ بھی دینا پڑتا ہے۔
انسانوں کے رویوں کو سمجھنے کے لئے عام طور پر جانوروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان کے خاندانی نظام میں بھی اسی طرح کے مختلف جنسی میلان پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب خط طویل ہو رہا ہے۔ مزید مثالیں دینے کی بجائے، اب میں اصل سوالوں کی طرف آؤں گا۔ پو چھنا یہ ہے کہ انسانی معاشروں میں شادیوں کی اتنی مختلف اقسام کی موجودی میں شادی کی کون سی قسم، انسان کی جنسی نفسیا ت سے مطابقت رکھتی ہے؟
شادی کا زیادہ تعلق کہیں اس معاشرہ کی معاشیات سے تو نہیں؟ اگر یہی وجہ ہے تو کیا انسانی نفسیات کا اس میں پھر بھی کوئی کردار موجود ہے؟ کیا ایسی شادیاں انسان کے حیوانی جذبہ کو پورا کرنے کے ساتھ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرنے میں مدد دیتی ہیں؟
انسانی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان سوالات کے سماجی اور معاشی پہلو بھی ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کے نام یہ خط ’ہم سب‘ کی معرفت بھیجا ہے، کیوں کہ اس فورم پر ایسے ماہرین موجود ہیں، جو شاید انسانی نفسیات کی یہ گرہیں کھول سکیں۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
و السلام
ڈاکٹر سید محمد زاہد
و السلام
ڈاکٹر سید محمد زاہد