کورونا وائرس کے علاج کے لیے امریکہ کی فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ہنگامی بنیادوں پر ایبولا وائرس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ریمڈیسیور‘ کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اب امریکہ کے ہسپتالوں میں داخل کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے یہ دوا استعمال کی جا سکے گی۔
حالیہ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس دوا کے استعمال سے شدید متاثرہ مریضوں کی حالت میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
تاہم اس کے استعمال سے بڑے پیمانے پر اموات کو کم نہیں کیا جا سکا ہے۔
کورونا وائرس کا علاج: کون سی دوا کام کر سکتی ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلوارڈ نے اپنے چین کے دورے کے بعد کہا تھا کہ ’ریمڈیسیور‘ وہ واحد دوا ہے جو وائرس کے خلاف کچھ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
یہ اینٹی وائرل دوا اصل میں ایبولا کے علاج کے لیے بنائی گئی تھی لیکن چند دوسری بیماریوں کے لیے اس دوا کا استعمال زیادہ مفید رہا ہے۔
یہ دوسرے مہلک کورونا وائرسز کے علاج میں بھی مؤثر ثابت ہوئی ہے جیسے مرس (مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم) اور سارس (سویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم)۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ کورونا وائرس کے خلاف بھی مدد کر سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کی سربراہی میں کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سے یہ سامنے آیا تھا کہ یہ دوا کورونا کے لیے بھی مفید ہے۔
یہ عالمی ادارہ صحت کے یکجہتی ٹرائل والی چاروں ادویات میں سے ایک ہے اور اسے بنانے والی کمپنی ’جیلیڈ‘ بھی اس پر تجربات جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس دوا، جو کیلیفورنیا میں فارما کمپنی ’جیلیڈ‘ نے ابتدائی طور پر ایبولا کے علاج کے لیے بنائی تھا، کو کورونا وائرس کے علاج کے لیے کسی ’جادوئی حل‘ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
یہ دوا وائرس کے جینیات میں مداخلت کرتی ہے، جس سے مزید وائرس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے یعنی وہ اپنی شکل کے مزید وائرس پیدا نہیں کر پاتا۔
کورونا وائرس کے لیے سب موثر دوا کون سی ہے؟
یہ دوا کورونا وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی صدر کے ساتھ اوول آفس میں ملاقات کے دوران جیلڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر ڈینیئل او ڈے نے کہا کہ ایف ڈی اے کی منظوری پہلا اہم قدم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی اس دوا کی 15 لاکھ خوراکیں بطور تحفہ دے گی۔
ایف ڈی اے کے کمشنر سٹیفن ہان نے اجلاس میں بتایا کہ یہ کووڈ-19 کے علاج کی پہلی منزل ہے اور ہمیں اس کا حصہ بننے پر فخر ہے۔
ایمرجنسی میں استعمال سے متعلق ایف ڈی اے کی منظوری باقاعدہ منظوری جیسی نہیں ہے اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم ریمڈیسیور سے متعلق اب تک کیا جانتے ہیں؟
اس دوا نے ایبولا کا علاج نہیں کیا اور اس پر جیلڈ نے اپنی ویب سائٹ پر واضح کیا ہے کہ ’ریمیڈیسیور ایک تجرباتی دوا ہے، جس میں کسی بھی مرض کے خلاف حفاظت یا افادیت قائم نہیں ہے۔‘
جیلڈ نے اس کے دیگر ممکنہ مضر اثرات سے متعلق بھی خبردار کیا ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ ریمڈیسیور کے کورونا وائرس کے علاج سے متعلق دوا ہونے کے بڑے حامی ہیں۔
اس دوا کے کلینیکل ٹرائل میں، جس کے مکمل نتائج ابھی جاری نہیں ہوئے، یو ایس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکٹو ڈزیزز (این آئی اے ایڈ) نے دریافت کیا کہ ریمڈیسیور نے کورونا کی علامات کی مدت کو 15 دن سے کم کر کے 11 دن کر دیا ہے۔ یعنی اس کی مدد سے صحت یابی 15 دن سے کم ہو کر 11 دن کی مدت پر آ گئی ہے۔
امریکہ، فرانس، اٹلی، برطانیہ، چین اور جنوبی کورنیا سمیت دنیا بھر کی ہسپتالوں میں اس دوا کا تجربہ 1063 لوگوں پر کیا جا چکا ہے۔ کچھ مریضوں کو یہ دوا دی گئی جبکہ دیگر مریضوں کا پلیسبو (ڈمی) علاج کیا گیا ہے۔
این آئی اے آئی ڈی کے سربراہ ڈاکٹر اینتھونی فاؤسی کا کہنا ہے کہ ریمیڈیسیور کا جلد صحت یاب کرنا ایک بہت اہم، واضح اور مثبت اثر ہے۔
اس دوا سے جلد صحت یابی میں مدد مل سکتی ہے تاہم تجربے کے دوران اس کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا کہ آیا یہ کورونا وائرس سے اموات کو روک سکتی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ علاج معالجے کے بارے میں ابھی تک بے یقینی باقی ہے جیلڈ کی یہ تجویز ہے کہ وینٹیلیٹرز پر موجود مریضوں کے لیے دس دن اور اس کے بغیر مریضوں کے لیے یہ پانچ دن کا عرصہ ہونا چاہیے۔
کیا دیگر ممالک بھی ریمڈیسیور کا استعمال کر رہے ہیں؟
ایف ڈی اے کا دائرہ اختیار امریکہ سے باہر نہیں ہے لہٰذا یہ اجازت صرف امریکہ کی حد تک ہی لاگو ہوتی ہے۔ ماہرین نے یہ بھی زور دیا کہ ہنگامی استعمال مکمل منظوری کے مترادف نہیں ہے۔
جیلڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت اس دوا کے موجودہ ذخیرے کو استعمال کر رہی ہے اور سپلائی محدود ہے۔ امریکی حکومت کووڈ-19 سے سب زیادہ متاثر ہونے والے امریکی شہروں کے ہسپتالوں میں ریمیڈیسیور کی تقسیم کو یقینی بنائے گی۔
ابھی تک ہی واضح نہیں ہے کہ کتنی مقدار میں اور کس قیمت پر یہ دوا دنیا میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔
جیلڈ کے مطابق کمپنی ریمیڈیسیور کی 15 لاکھ انفرادی خوراکیں عطیہ کر رہی ہے، جو علاج کے 140،000 سے زیادہ کورسز کے برابر ہے جو بغیر کسی قیمت کے مہیا کیے جائیں گے۔ اس میں امریکہ میں اس دوا کے نسخے ہنگامی بنیادوں پر تقسیم بھی شامل ہے۔
لیکن دنیا بھر میں اس وائرس سے 185 ممالک میں 30 لاکھ سے زیادہ مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
کورونا وائرس: عالمی وبا کا پتا چلانا
جیلڈ کے مطابق وہ اپنے عالمی شراکت داروں سے مل کر اس دوا کی زیادہ پیداوار کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یکم اکتوبر تک کم سے کم پانچ لاکھ علاج کے نسخے تیار کرنا کپمنی کا ہدف ہے۔ اسی طرح کمپنی اہداف کے مطابق دسمبر 2020 تک 10 لاکھ اور 2021 میں مزید ایک دس لاکھ نسخے تیار کرے گی۔
امریکہ میں دوا کی قیمتوں پر تحقیق کرنے والے ادارے انسٹیٹیوٹ فار کلینیکل اینڈ اکنامک ریویو نے دس دن کے ریمڈیسیور کورس کی لاگت کا تخمینہ دس ڈالر لگایا ہے۔ تاہم اس ادارے کے مطابق کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر اس کی قیمت 4،500 ڈالر تک ہو سکتی ہے۔
ساوتھمپٹن یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ایک سینیئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر مائیکل ہیڈ نے کہا کہ اس اقدام سے ’نئے جرثوموں کے ابھرنے کی صورت میں موجودہ علاج معالجے کے استعمال کی پر تحقیق کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔‘
ہسپتال میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے دستیاب آپشن میں سے ڈاکٹرز کے اختیارات میں یہ ایک اہم اضافہ ہے۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے بہت سے مریض ہلاک ہو جائیں گے۔ لہٰذا اگرچہ ریمڈیسیور کی تاثیر محدود ہے، تاہم علاج کے آپشن کی حیثیت سے یہ ایک مفید اضافہ ہو سکتا ہے۔