نوٹ: ہندوستان میں سیکس ورکروں نے اپنے آپ کو بڑی حد تک منظم کرلیا ہے- وہ اس دھندے کے بیوپاریوں، گاہگ،ریاستی اداروں اور سماج میں اخلاقیات کے کوڑے اٹھائے پھرنے والی ‘پڑھے لکھے’ متوسط طبقے کی منافقت کا مقابلہ کررہے ہیں دیورسی گوش نے مغربی بنگال کے شہر کولکتہ اور چندرنگر کے نوآبادیاتی دور اور آج کے زمانے میں طوائفوں کے کام کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے
پاکستان میں اگرچہ کئی ایک این جی اوز نے سیکس ورکرز پر بہت سے پروجیکٹ چلائے اور یہاں بہت ساری ایڈوکیسی مہم بھی چلیں لیکن ہماری ریاست نوآبادیاتی دور سے بھی پیچھے چلی گئی ہے- یہ ٹبی گلیاں، شاہی محلے اور لی مارکیٹ میں بنے بازار تو ختم کراچکی اور کاغذوں میں’اخلاق’ کی فتح بھی دکھا چکی لیکن دن کے اجالوں اور راتوں کی تاریکیوں میں دھندا چل رہا ہے بس اس کو تسلیم کرنے کی نہ تو ہمت ہے اور نہ ہی کسی کو اس دھندے سے وابستہ کارکنوں کے انسان ہونے اور ان کے بھی حقوق ہونے کی طرف اشارہ کرنے کی اجازت ہے
اصل مضمون سکرول ان ویب سائٹ پر بزبان انگریزی شایع ہوا۔ جہاں اسے پڑھا جاسکتا ہے
آج کا چندر نگر اپنے فرانسیسی نوآبایاتی فن تعمیر ایل ای ڈی کی جدید طرز پر تنصیب کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس شہر میں ہی لکشمی گنج بازار ہے – جی ٹی روڈ پر 500 میٹر پر یہ بازار پھیلا ہوا ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اسے الگ سے کوئی قسم کا بازار ہونے کا تاثر دیتی ہو- بازار میں کچھ چھوٹے اور درمیانے سائز کے اسٹور ہیں، چند ایک رہائشی عمارتیں ہیں ، ایک شاپنگ کمپلیکس ہے لیکن کوئی ایک نشانی بھی ایسی نہیں ہے جو اس کے شوخ و شنگ ماضی کا پتا دیتی ہو- جب اس شہر نے بنگال میں برطانوی آقاؤں کے بنائے ہوئے ایک ظالمانہ قانون کے ستائے لوگوں کو پناہ دی تھی
زمانہ چندر نگر کے ثقافتی ورثے کے لیے کبھی مہربان نہیں رہا- اس شہر کے فرانسیسی تعمیرات کے اکثر نمونے رئیل اسٹیٹ نے مسمار کرڈالے، یا ان کو 1921ء میں معروف سڑک چندر نگر سٹرینڈ روڑ کو عبور کرکے آنے والی سڑک پر دریائے گنگا کے کنارے بنی ایک گلگشت کے لیے بچالیے گئے تھے
پچاسی سالہ ماہر شماریات اور ایک عرصے سے چندر نگر کے باسی ـ بھابھانی چندرداس کہتے ہیں
چندر نگر ایڈمنسٹریشن، کمیونسٹوں کے زمانے سے ایک تو تاریخ بارے کم فہمی کا شکار رہی تو دوسرا اسے کبھی ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کی سمجھ نہ آئی-آج جس شخص کی عمر 35 سال ہے وہ جان ہی نہیں سکتا کہ لکشمن گنج بازار کیا تھا۔ اس شہر کی کہانی بدقسمتی سے سٹرینڈ روز سے شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہوجاتی ہے-
(آج کل عام لوگ اسے سٹینڈ باجار کہتے ہیں)
سترھویں صدی میں چندر نگر ایک فرانسیسی باشندوں کی بستی کے طور پر آباد ہوا تھا- اگلے سو سالوں میں، فرانسیسی اور انگریز اس پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کرتے رہے- لیکن اس سارے عرصے میں چندر نگر میں ‘جنس کی تجارت’ اپنے آپ کو بچا کر رکھتی رہی یہاں تک کہ آبادی کا ایک بڑا حصّہ سیکس ورکرز کا بن گیا
لکشمی گنج بازار میں سیکس ورکرز کا ایک اور بڑا ریلا کہیں بعد میں جاکر بھی آیا- سن 1868ء میں انگریزوں نے ہندوستانی انسداد متعدی بیماری ایکٹ جسے ایکٹ فورٹین بھی کہتے ہیں نافذ العمل کردیا تو اس نے ساری سیکس ورکرز کو سرکاری طور پر اپنا بطور سیکس ورکر اندراج کرانے اور چھوت کی بیماریوں کے ٹیسٹ کرانے لازم کرڈالے- اس قانون کے نفاذ سے امید یہ تھی کہ برطانوی راج کے فوجیوں کو سیکس ورکرز سے دور رکھا جاسکے گا- لیکن اس کے نفاذ نے سیکس ورکرز پر جبر کرنے کی ایک نئی لہر کو جنم دے دیا- جس کے بعد سیکس ورکرز کی چندر نگر اجتماعی منتقلی کی بڑی لہر دیکھنے کو ملی-
بہت سارا فکاہیہ اس زمانے میں انسداد متعدی امراض ایکٹ کے خلاف چھپنے والے پمفلٹوں میں لکھے گئے جو بڑے پیمانے پر تقسیم کیے جاتے تھے- اس ایکٹ کا نام’چودوآئین/چودہ ایکٹ پڑ گیا تھا- یہ نام بنگالیوں نے دیا تھا- ان میں سے ایک پمفلٹ کا عنوان تھا ‘ بود ماش جبڈو'(برائی ختم ہوگئی) تھا۔
پران کرشنا دتّہ اس پمفلٹ کا لکھاری تھا اور یہ پمفلٹ انیسویں صدی کے بنگال میں طوائفوں کے حالات زندگی کا المناک احوال تھا
محقق سروجیت سین جو چندرنگر کے بڑے عرصے سے رہائشی ہیں اور السٹریٹر سمبران داس جنھوں نے ‘بودماش جبڈو’ پر ایک تبصرہ شایع کیا کہتے ہیں
چودہ آئین غائب دماغی سے بنائے گئے قانون کے برے طریقے سے نفاذ کی ایک مثال تھا- اس کی وجہ سے سماج کے جو سب سے کمزور سیکشن تھے وہ نہ صرف تشدد کا نشانہ بنے، ان کی روزی روٹی ختم ہوگئی بلکہ ان کو بے دخلی کا عذاب بھی بھگتنا پڑا- یہ سب آج بھی ایسے ہی ہورہا ہے۔
چودہ آئین کا بحران
ماہر تاریخ سمانتا بنیرجی کی کتاب ‘خطرناک دربدری: 19ویں صدی میں جسم فروشی’ میں لکھتے ہیں
انیسویں صدی کے بنگال میں جسم فروشی کا کام کلکتہ اور اس کے گرد و نواح میں 1800ء میں پھیلنا شروع ہوا- یہ ماقبل نوآبادیاتی دور کے ہندوستان کی طوائفوں کے کام سے نمایاں طور پر مختلف دھندا تھا- اس ومانے کی طوائفوں کو شاہی سرپرستی حاصل ہوا کرتی تھی – وہ فنون لطیفہ میں مشغول ہوا کرتیں اور سماجی و ثقافتی تقریبات میں حصّہ لیا کرتی تھیں-
برطانوی راج میں، غلام اور کنیزیں جب غائب ہونا شروع ہوگئیں تو اس عمل نے خالص کمرشل بنیادوں پر اجرت پر جسم کی فراہمی کا کام کرنے کا راستہ ہموار کردیا جسے سیکس ورکر کہا جاتا ہے- سیکس ورکر کا پیشہ جسمانی مسرت بہم پہنچانا ہوتا تھا- صرف سب سے زیادہ ‘جڑوں سے محروم اور بے دخل عورتیں’ پوری ریاست سے کلکتہ اور اس کے نزدیکی شہری حلقوں میں اس پیشہ کو اختیار کرنے آیا کرتی تھیں-
انگریزوں کا سیکس ورکروں کی طرف رویہ اس شمولیت پسند آداب سے بالکل الٹ تھا جن کے ساتھ ان سے پہلے والے معاشرے میں ان کے ساتھ پیش آیا جاتا تھا- ایک طرف تو حکومت وکٹوریائی اخلاقیات سے دبی ہوئی تھی اور اس دباؤ میں اس نے اس پیشہ کو ایک کلنک قرار دیا اور اسے جرم کا درجہ دے ڈالا- جبکہ دوسری طرف، اس نے اپنے فوجیوں کے لیے ‘سیکس کرنے’/سیکس ورک کو ایک منظم کاروبار میں بدل ڈالا تھا- اور یہی وہ وقت تھا جب’چودہ آئین’ سامنے آیا-
ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں، برطانوی فوجیوں کو ‘چکلہ یاترا’ کرنے سے روکا نہ جاسکا، ان میں میں سے بہت سارے وہاں سے جنسی عمل کے دوران منتقل ہونے والی بیماری(جماعی بیماری/ سیکچوئل ٹرانسمٹیڈ انفیکشن لیکر لوٹتے- اس سے انسانی محنت کے گھنٹوں ضایع ہوتے اور انتظامیہ پر علاج و معالجے کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی بڑھ جاتا تھا- انگریز ریاست نے کمپنی سے ہندوستانی انتظام لینے کے بعد اس پر روک لگانے کی کوشش کی- 1864ء میں، اس نے ‘چھاؤنی ایکٹ’ متعارف کروایا- اس ایکٹ کے تحت ‘چھاؤنی بازاروں میں باقاعدہ سرکاری چکلے قائم کیے گئے تاکہ جماعی بیماری پر قابو پایا جاسکے-
بینرجی کے مطابق یہ پالیسی بری طرح ناکام ہوگئی – فوجی کثرت سے چھاؤنیوں سے باہر جایا کرتے یا جہاں سیکس مل پاتا،بیرک سے فرار ہوکر پہنچ جایا کرتے اور اس سے جماعی بیماری کا پھیلاؤ جاری رہا- یکم اپریل 1869ء کو ‘ انسداد متعدی امراض ایکٹ’ متعارف کرایا گیا- یہ قانون 1864ء کے اندر یو کے میں پاس کیے جانے والے قانون کا چربہ تھا
متعدی امراض کا قانون سیکس ورکر کے لیے لازم کرتا تھا کہ وہ حکومت کے پاس اپنا اندراج کرائیں اور جنسی عمل کے دوران منتقل ہونے والی بیماری کی جانچ کے لیے باقاعدگی سے چیک اپ کرائیں۔ اگر کوئی سیکس ورکر انفیکشن کا شکار پائی جاتی تو اسے کوارٹر میں بند کردیا جاتا اور جب تک وہ اس سے نجات نہ پالیتی اس وقت تک وہ کام پر واپس نہ لوٹ پاتی ۔
بینر جی نے لکھا ہے کہ کلکتہ کی سیکس ورکر اس قانون کے اس لیے خلاف ہوئیں کہ اس کے تحت جس طریقے سے وہ اور بعض اوقات دوسری عورتیں اکٹھے کی جاتیں وہ بہت ہی ذلت آمیز ہوا کرتا تھا- اگر وہ اندراج سے انکاری ہوتیں ۔۔۔۔ یا وہ اس قانون کے تحت اندراج نہ ہونے والی طوائفیں خیال کی جاتیں تو ان کو جیل میں پھینک دیا جاتا تھا- سیکس ورکرز یہ بھی دلیل دیتے کہ قانون ان کے کاروبار کے لیے بھی برا ہے کہ ان کو اس کے تحت لمبے عرصے تک ہسپتالوں میں رکھا جاتا ہے۔
سیکس ورکر رشوت دے کر اپنا راستا نکال لیا کرتی تھیں لیکن گلی محلوں میں پولیس والے دباؤ کے تحت کارکردگی دکھانے کے لیے غریب عورتوں پر جبر کرتے تھے- اس وجہ سے کلکتہ کی سیکس ورکر کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں سے نقل مکانی کرگئی- 1887ء کے ایک سرکاری میمو کے مطابق آدھی سے زیادہ مقامی عورتوں نے شہر چھوڑ کر یا تو نواحی علاقوں میں رہائش رکھ لی یا وہ مزید اور دور دراز کے علاقوں میں چلی گئیں
قصّہ دو شہروں کا
لکشمی گنج بازار ریڈ لائٹ ضلع کلکتہ کے چکلے سے کافی پرانا تھا- چندر نگر کے ماہر تاریخ بسواناتھ بندوپادھیائے کے مطابق، یہ کاروباری لوگوں کے سفر کرنے کے سبب قائم ہوا تھا جو 1700ء کے آخر میں یہاں آیا کرتے تھے، لیکن اس کی ترقی ‘متعدی امراض کے قانون’ کے سبب ہوئی-
بڑی تعداد میں سیکس ورکر کلکتہ سے فرار اوکر لکشمی گنج بازار میں پناہ گزین ہوگئے- بندوپادھیائے کا کہنا ہے
بڑی تعداد میں طوائفوں کے امنڈ آنے پر، فرانسیسی حکومت نے ان پر ٹیکس عائد کرنا شروع کردیا اور کہ بازار ان کے سرکاری کام کے سازگار بن گیا تھا- کچھ صدیوں کے بعد لیفٹ فرنٹ حکومت نے ان کو 1980ء میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے ان کو وہاں سے نکال باہر کیا- سیکس ورکر وہاں سے فرار ہوکر چنسورا اور کالنا جیسے قریبی شہروں میں جابسیں۔
انیسویں صدی میں تعداد بڑھنے کی وجہ سے سیکس ورکرز کے کام کی مزدوری کا بھاؤ کم ہونے لگا- جیسا کہ پران کرشنا دتّہ کے ہم عصر اگور چندر گوش نے طنزیہ نظم ‘پنچالی کمالکالی'(کنول کے پھولوں کے کنج پر نظم) میں کہا تھا
آٹ پیسہ موجور جرا کجھور چٹائے تھاکے
کھاٹ پولوں کے کھاشا بچنائے سچے لاکھے لاکھے
آٹھ پیسہ کا مزدور تھک کر کجھور کی چٹائی پر تھک کر سوجاتا تھا
اب اس کے پاس بہترین کھاٹ پر طوائفوں کے ساتھ سونے کا موقعہ ہے
اس دوران، کلکتہ میں اور سارے فرنگی راج کے بنگال میں، ‘متعدی امراض کا قانون’ کی دہشت جاری رہی ۔ بینر جی نے لکھا
کم از کم 12 عورتیں ہر روز ضابطوں کی خلاف ورزی پر جیل جاتی تھیں جبکہ جیل اور ہسپتالوں میں پولیس ہندوستانی سیکس ورکرز اور یورپ و یوریشیا کی طوائفوں کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھتی تھی-
اسی امتیازی سلوک نے بھدرالوک/ پڑھے لکھے بنگالی طبقے کو سیکس ورکروں کے حق میں کردیا تھا- جہاں پہلے کلکتہ کے درمیانے طبقے نے اس قانون کو سپورٹ کیا تھا اور سوچا تھا کہ اس سے طوائفوں جیسی برائی مٹ جائے گی تو جلد ہی ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ قانون تو افتادگان خاک کو دبانے کا آلہ بن گیا ہے- اور وہ اس کے خاتمے کی مانگ کرنے لگے۔
ایسی ہی ایک تحریک برطانیہ میں ابھر رہی تھی- عورتوں کے گروپوں بشمول ‘جوزفین بٹلر کی قیادت میں نیشنل ایسوسی ایشن نے برطانوی قانون کے تحت باقاعدگی سے عورتوں کا معائنہ توہین آمیز ہے۔ انھوں نے اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور اپریل 1886ء میں انھوں نے کامیابی حاصل کرلی۔
قومی تنظیم برائے خواتین نے اگلے مرحلے میں اپنی توجہ ہندوستانی قانون برائے متعدی امراض کی طرف کردی- بھدرا لوگ سیاست دانوں نے فوری اپنی مکمل حمایت پیش کردی اور ہندوستان میں برطانوی فوج نے نوٹ کیا کہ بندھن بدل رہے تھے-
صرف چند گرفتار شدگان کو سزائیں ملیں اور جند سیکس ورکرو کا ہسپتالوں میں علاج ہوپایا- جبکہ اس پیشے کی افرادی قوت کا بڑا حصہ اس قانون سے بچ نکلا- حکومت نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ ‘جماعی بیماری’ برطانوی فوج کے اندر بڑھ گئی ہے-
برطانوی فوج آخرکار ہوشیار ہوگئی- ستمبر 1888ء میں، 20 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد، قانون برائے متعدی امراض پھر ہندوستان میں لاگو کردیا گیا-
تعصبات قائم ہیں
بندوپادھیائے کہتے ہیں کہ
لوک بھدرا/ پڑھی لکھی مڈل کلاس کے ابھار اور ان کی بنائی ہوئی اخلاقی اقدار جن کی کمیونسٹوں نے بھی حوصلہ افزائی کی کو قبول عام ملنے آنے والی صدی میں سیکس ورک چندر نگر میں ہچکولے کھانے لگا- جس دوران انگریز چلے گئے، تو کلکتہ کی سیکس انڈسٹری کو ‘سوناگاچی’ میں ابھرنے کا موقعہ مل گیا- اسے ایشیا کا سب سے بڑا ریڈ لائٹ علاقہ کہا جاتا ہے۔
سروجیت سین کا کہنا ہے
” سونا گاچی میں جتنا بھی کاروبار ہے،وہ سیکس کی تجارت کے سبب ہے،بلکہ اس سے ملحقہ علاقوں میں ریستوران،بار اور دکانیں ہونا ناقابل تصور بات ہے لیکن ان کو وہاں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔”
چودہ آئین کے نفاذ سے جو مسائل ابھرکر سامنے آئے، چاہے وہ سیکس ورکرز میں جماعی بیماری کا ہو یا حکومتی جبر کا مسئلہ ہو، کیا وہ 2019ء میں بھی موجود ہیں؟
مغربی بنگال میں 65 ہزار سیکس ورکروں کی رکنیت رکھنے والی ‘دربار مھیلا سامانوائے کمیٹی کی رہبر بھارتی دے کہتی ہیں کہ اس کا جواب ‘ہاں اور ناں’ دونوں ہی ہیں
سن 1995ء میں، یہ تنظیم سیکس ورکر کے لیے ایڈوکیسی گروپ کے طور پر سامنے آئی تھی ۔ اس آگاہی مہم کا مقصد سیکس ورکر کے لیے سازگار و محفوظ حالات کو ممکن بنانا تھا- نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت داری میں یہ تنظیم انچاس کلینک چلاتی ہے جہاں پر سیکس ورک کا روٹین ہیلتھ چیک اپ ہوتا ہے۔
بھارتی دے کہتی ہیں
تنظیم نے سیکس ورکرز کو بااختیار بنایا اور ان کو اپنے اس گاہک کو ‘ناں’ کہنے کی طاقت بخشی ہے جو کنڈوم استعمال نہیں کرنا چاہتا
سن 2018ء میں اقوام متحدہ کے ایچ آئی وی/ایڈز بارے ایک پروگرام کی جوائنٹ اسٹڈی رپورٹ کے مطابق 2017ء میں ہندوستانی سیکس ورکروں کی کل تعداد کا ایک اعشاریہ چھے فیصد خواتین سیکس ورکر میں ایچ آئی وی پازیٹو تھا یا وہ مبتلائے ایڈز تھیں جبکہ 2018ء اکیانوے فیصدی سیکس ورکرز نے کنڈوم کی پابندی کو لازمی اپنایا۔
تنظیم شمالی کولکتہ کے سونا گاچی میں سرگرم ہے اور یہ تنظیم سیکس ورکرو پر قانون کے نام پر یا ماورائے قانون جبر کے خلاف ورکرز کا تحفظ کرتی، ان کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ جیسا کہ 2008ء میں اس تنظیم کی جانب سے جاری ہونے والی دستاویزی فلم ‘رات کی پریوں کی کہانیاں’ میں دکھایا گیا ہے۔ سب اچھا بہرحال نہیں ہے۔
بھارتی دے کہتی ہیں
سیکس ورکر اپنے آپ کو سرکار کے کھاتے میں درج کیوں کرائیں؟ آج بھی اکثر پولیس والے یا حکومت ہمارے پاس ایسی درخواست لیکر آجاتی ہے ۔ تمام سیکس ورکروں کے پاس شناختی کارڈ ہیں جو ہندوستانی شہری ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے تو وہ اپنا دھندا آزادانہ کیوں نہ کریں؟
کولکتہ کے سیکس ورکروں نے اپنے آپ کو منظم کرکے ایک قوت بنالیا ہے لیکن اکثر ان کو تعصب اور ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔ 2010ء کے شروع میں جب انھوں نے سوناگاچی میں درگا پوجا کا تیوھار منانے کی اجازت مانگی تو ان کے خلاف مقامی آبادی کے رہنے والوں نے احتجاج کیا- مسئلہ کولکتہ ہائی کورٹ تک گیا- سیکس ورکروں نے کیس جیت لیا اور 2013ء سے وہ یہ تیوھار منارہے ہیں۔
بہت سارے اور مسائل ہیں جن کا ہم اب بھی سامنا کررہے ہیں- ہم نام نہاد ‘انسداد غیر اخلاقی ٹریفک ایکٹ’ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک اینٹی ٹریفکنگ بل ہے جسے پاس نہیں ہونا چاہئیے۔ ہمارے حقوق کو مانا نہیں جارہا اور یہاں تک کہ ہمارے کام کو ‘لیبر قوانین’ کے دائرے میں بھی نہیں لایا گیا- اس پیشہ کو ابھی بھی قانونی حثیت دینا باقی ہے۔ ابھی بہت سارا کام کرنا باقی ہے۔
مترجم: عامر حسینی