انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیشہ شہروں کی سطح پر منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے اس میں اکثر و بیشتر وہی چہرے، وہی بولیاں اور وہی قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں ماضی میں دیکھتے، سنتے اور دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منتظر نگاہیں جن کی راہیں تک رہی ہیں ہمیشہ سے نظرانداز ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہی نگاہیں جن سے ان کے خواب چھینے جا چکے ہیں ان خوابوں کو دوبارہ پانے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن امیدوں کا جھونکا بن کر آجاتا ہے پھر رفوچکر ہو کر واپس چلا جاتا ہے اور ایک سال کا وقفہ مکمل کرکے دوبارہ خواب دکھانے آجاتا ہے۔
جب بھی اپنے آس پاس نگاہیں دوڑاتا ہوں تو جو خاکہ عود کر سامنے آتا ہے اس میں انسانی حقوق کا ذرا سا پہلو دیکھ نہیں پاتا ہوں۔ ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور انسان کو جن القابات سے نوازا جاتا ہے ان القابات کا مشاہدہ سب سے پہلے اپنے وجود میں جھانک کر کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اُن اہداف تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا ہوں جو ایک انسان ہونے کے ناتے انسان کے لیے مقرر کیے جا چکے ہیں تو سوچنے لگتا ہوں کہ ان اہداف تک رسائی کا ذریعہ کیا ہوگا جن تک پہنچ کر ایک انسان ہونے کا نوید اپنے آپ کو سنا سکوں۔
گو کہ کہنے کو ہم انسان ہیں اس ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے آج انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ اس دن کو مناتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے میں لا کر انسان بننے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بند گاڑی کے اندر ہارن لگاتے ہوئے دوسروں پر گالیاں کستے اور اوور ٹیک کرتے ہوئے اس اسٹیج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر انسانی حقوق کا پرچم لہرا رہا ہوتا ہے اور ایک لمبی تقریر کرکے اپنے آپ کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہ صرف ہم انسانی حقوق کا فرض ادا کر چلے بلکہ دوسروں کو زبانی درس دے کر انسانیت کے کٹہرے میں لانے اور انہیں حقوق دلانے میں کامیاب ہوگئے مگر جو اذیت چند لمحے قبل ہم دوسروں کی جولی اور سماعتوں کے حوالے کرکے آ گئے تھے وہ کیا تھے۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر میں اپنی پوری گفتگو بلوچستان کے بچوں پر رکھ کر کرنا چاہتا ہوں اور یہ دن ان بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں جو تعلیم سے محروم ہیں۔ انہیں تعلیم سے محروم کس نے رکھا؟ یہ سوال ریاست کے سامنے ہے۔ شہرِ اقتدار اور دارالخلافہ کوئٹہ میں مقیم ان بچوں کے نام جو تمام تر تکلیف و دشواریوں کو سمیٹنے کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا انسانی حقوق کا عالمی دن ان بچوں کے ہاسٹلوں میں رہ کر منانے کی کوئی جرات کر سکے گا؟
یہ سوال ہر سال تقریبات منعقد کرنے والوں اور لمبی لمبی تقریریں چھوڑنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن ان بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں جو اسی دنیا کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس دنیا سے جڑ نہیں پا رہے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جن کے سر سے ان کے والد کا سایہ چھینا جا چکا ہے نہ ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ ہی پہننے لباس اور چپل اور نہ ہی حصولِ تعلیم کا کوئی ذریعہ۔ کیا انہیں ان کے حقوق دلائے جا سکتے ہیں؟ یہ سوال انسانی حقوق کے علمبردار تنظیموں اور پالیسی سازوں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
ہمارے بچے سکولوں کے اندر کن کن مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں ہم ”بلوچستان ایجوکیشن سسٹم“ مہم کے ذریعے اجاگر کرتے چلے آ رہے ہیں اور انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ریاست اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے مسائل اور بنیادی حقوق وہ خاکہ لا رہے ہیں جو سکول کے بچوں کو درپیش ہیں اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
1۔ بچے کرسی اور ٹیبل کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
2۔ بچے جونپڑی یا ایک کمرے پر مشتمل سکول کے اندر پڑھنے پر مجبور ہیں پوری صورتحال انہیں ذہنی ازیت پہنچا رہی ہے۔
3۔ بچے سکول، معاشرہ اور گھر کے ماحول سے اثرانداز دکھائی دیے۔ ان اثرات سے نکلنے کے لیے ان کے پاس اور راہیں موجود نہیں۔
4۔ بچے خوف کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں خوف کا یہ نظام استاد کی طرف سے، محکمہ تعلیم کے ذمہ داران و انتظامیہ کی طرف سے رائج کردہ ہے۔ خوف کے اس ماحول میں بچوں کا اعتماد کا گراف بھی گر چکا ہے بلکہ وہ سوالات کرنے سے کتراتے ہیں۔
5۔ بچوں کے لیے نہ لوکل ٹرانسپورٹیشن کا انتظام ہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم کی جانب سے ٹرانسپورٹیشن کا بندوبست بچے کئی کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے سکول جانے پر مجبور ہیں۔
6۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بہت ہی اہم ہوتی ہیں۔ مگر تعلیمی منصوبہ بندی میں ہم نے غیرنصابی سرگرمیوں کا جز ہذف ہی پایا۔ کسی بھی سکول کے ساتھ ہم گراونڈ منسلک نہیں پایا۔ جہاں کہیں غیرنصابی سرگرمیاں ہو رہی ہیں اس نظام سے سکولنگ کے نظام کو ہم نے متاثر پایا۔
7۔ غریب، یتیم اور لاچار بچوں کے لیے وظیفے کا کوئی انتظام موجود نہیں پایا بلکہ غریب و لاچار بچوں کی یونیفارم کی مد میں آنے والی رقم کو بچوں پر خرچ کرتے ہوئے نہیں پایا۔
8۔ سائنسی سرگرمیاں مفقود 90 فیصد ہائی سکول سائنسی اساتذہ سے محروم سکولوں کے اندر سائنسی مضامین کا کوئی تصور نہیں درس و تدریس کا نظام فقط تھیوری تک محدود تھا۔ بچے سائنسی مضامین کا جتنا بھی مطالعہ کیا کرتے ہیں وہ ان کی سر سے گزر جاتی ہے۔ بچوں کو سائنسی مضامین کے حوالے سے مشکلات میں پایا۔
9۔ بچوں کو رویوں سے متاثر ہوتا ہوا پایا۔ انہی رویوں کا سامنا وہ گھر کے اندر کر پا رہے ہوتے ہیں گھر سے باہر اور سکول کے اندر مگر نصاب کے اندر ہم نے رویوں پر ایک بھی مضمون نہیں پایا۔
ان مسائل کو اجاگر کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ پالیسی ساز ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان بنیادی ایشوز پر کام کریں ان پر صرف باتیں نہ ہوں بلکہ عملی اقدامات ہوں اور متعارف کردہ پالیسیوں میں اصلاحات لائیں جو ابتری لانے کا موجب بن رہے ہیں۔