ڈاکٹر خالد سہیل
جب میں ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی دعوت پر اوکلاہوما گیا تو وہ مجھے اتوار کی صبح اپنی UNITARIAN CHURCH لے گئیں۔ یہ چرچ باقی سب گرجوں سے مختلف اور منفرد ہے۔ اس چرچ کے دروازے ہر مکتبہِ فکر، ہر نقطہِ نظر اور ہر فلسفہِ حیات کے ماننے والوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ میں نے جب ڈاکٹر لبنیٰ مرزا سے پوچھا کہ آپ نے اپنے گرجے کے لوگوں کو کیسے راضی کر لیا کہ وہ ایک دہریہ ماہرِ نفسیات کو لیکچر دینے کی دعوت دیں تو وہ کہنے لگیں کہ ہمارے چرچ کا پادری بھی دہریہ ہے۔ میں چونکہ کبھی کسی دہریہ پادری سے نہ ملا تھا اس لیے بڑے شوق سے اینڈی سے ملا۔ وہ ایک لمبی داڑھی والا خوش مزاج اور دراز قد نوجوان تھا۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملا ۔ کہنے لگا ‘ہمارے چرچ کے ممبر آپ کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں، ۔ میں نے اس دن اپنے گرین زون فلسفے پر لیکچر دیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اینڈی نے ایک mormon خاندان میں پرورش پائی۔ جوانی میں ہی دہریہ بن گیا۔ یہ علیحدہ بات کہ باقاعدہ پادری بننے کے لیے چار سال کی عیسائی تربیت بھی حاصل کی اور انسان دوستی کو گلے لگایا۔ مجھے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ یونیٹیرین چرچ کے جو ممبر ہر اتوار کو جمع ہوتے ہیں ان سب کا موقف ہے کہ انسان دوستی خدا پرستی سے زیادہ اہم ہے۔ کسی انسان کا خدا کو ماننا یا نہ ماننا اس کا ذاتی فعل اور ایمان ہے۔ اس کے بارے میں کسی اور انسان کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ شخص جانے اور اس کا خدا جانے۔ کسی انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی اور انسان سے وہ سوال پوچھے جو اس سے قبر میں فرشتے پوچھیں گے۔ ہر شخص نے اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
جب ہم عیسائی گرجوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی چند صدیوں میں انہوں نے ایک ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ اب سب گرجے ایک سپیکٹرم (طیف) پر ہیں۔ ایک کنارے پر کیتھولک چرچ ہے جو سب سے زیادہ روایتی ہے درمیان میں یونائیٹڈ چرچ ہے جو تھوڑی سی لبرل ہے اور دوسرے کنارے پر یونیٹیرین چرچ ہے جو سب سے زیادہ لبرل اور موڈرن ہے کیونکہ اس چرچ میں آنے والے لوگوں نے انسانی حقوق اور انسان دوستی کے اصولوں کو گلے لگایا ہے۔ بعض تو اسے چرچ کی بجائے کونگریگیشن کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
ہمیں ایرپورٹ لے جانے والی خاتون یونیٹیرین چرچ کی صدر تھیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ایک زمانے میں میتھوڈسٹ چرچ کی ممبر ہوتی تھیں لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ میتھوڈسٹ چرچ نے گے اور لیزبین لوگوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے میتھوڈسٹ چرچ کو خدا حافظ کہا اور یونیٹیرین چرچ کو گلے لگا لیا۔ اس چرچ کے لوگوں کو ان کی شخصیت اور ان کا فلسفہِ حیات اتنا پسند آیا کہ انہیں اس چرچ کا صدر چن لیا گیا۔ اس چرچ کی نائب صدر ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ہیں اور وہ دونوں خواتین مل کر خدمتِ خلق کرتی ہیں۔ میرے لیے یہ اہم بات تھی کہ یونیٹیرین چرچ نے دو عورتوں کو اہم عہدے دیے تھے۔ کئی مذہبی اداروں اور روایتوں کی طرح کیتھولک چرچ میں تو صرف مرد ہی پوپ بن سکتا ہے۔ یونیٹیرین چرچ میں عورتیں اور مرد اکٹھے بیٹھتے ہیں اور عورتیں سرمن (وعظ) بھی دیتی ہیں۔
میں بہت سے ایسے مذہبی اور خدا پرست مردوں اور عورتوں سے مل چکا ہوں جنہوں نے کبھی آسمانی کتابوں کا سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا اور کئی ایسے دہریوں کو جانتا ہوں جو سنجیدگی سے الہامی کتابوں کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان کتابوں کے مطالعے سے ان کا ایمان مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتا گیا اور ایک دن انہوں نے اپنے اندھے ایمان کو خیر باد کہہ دیا۔
بعض لوگ مذہبی لوگوں اور مذہبی رہنمائوں کی منافقت سے ایسے بددل ہوئے کہ مذہب ہی کو خیر باد کہہ دیا۔
وہ خدا پرست لوگ جو کبھی مسجد، مندر، گرجا یا سناگاگ نہیں گئے جب وہ دہریہ ہوئے تو ان کی سماجی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن وہ عیسائی جو خدا پرست بھی تھے اور باقاعدگی سے چرچ بھی جاتے تھے جب وہ انسان دوست آزاد خیال دہریہ ہوئے تو وہ احساسِ تنہائی کا شکار ہو گئے۔ ایسے لوگوں کو ایسے چرچ کی ضرورت تھی جس کی نگاہ میں انسان دوستی خدا پرستی سے زیادہ اہم تھی۔ اس خلا کو یونیٹیرین چرچ نے پر کیا۔
جب لوگ اس چرچ میں ہر اتوار کو جمع ہوتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو اپنے دکھ سکھ میں شریک کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔ اور ایسا سرمن سنتے ہیں جس میں انسانوں کی خدمت کی ترغیب دی جاتی تھے۔
یونیٹیرین چرچ کے ممبر تو کھل کر اپنے نظریات اور اعتقادات کا ذکر کرتے ہیں لیکن میں ایسے پادریوں سے بھی مل چکا ہوں جو اپنے دل میں تو دہریہ ہو چکے ہیں لیکن ان میں اتنی ہمت یا حوصلہ نہیں کہ وہ سب کے سامنے اپنے نظریات کا اظہار کر سکیں۔ وہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ بعض کو تو تھیریپی کی ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنے سچ کا کیسے اظہار کریں۔ ایک پادری نے جب اقرار کیا کہ اس نے خدا کی ہستی سے انکار کیا ہے تو اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے درمیان نجانے کتنے ایسے پیر ایسے فقیر اور ایسے امامِ مسجد موجود ہیں جو اپنے دلوں میں دہریہ ہو چکے ہیں لیکن خلقِ خدا کے خوف سے منافقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دوسروں کو ہر جمعے کے خطبے میں ان عقاید کا درس دیتے ہیں جن پر اب ان کا اپنا ایمان نہیں رہا۔ بقول ابن انشا
سچ اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
جانے سے پہلے آپ کو ایک مزاحیہ واقعہ سناتا جاؤں۔ میرے ایک افریقی دوست ہیں جن کا تعلق ایک مسلم گھرانے سے ہے ایک دن میں نے ان سے پوچھا
ARE YOU A MUSLIM?
کہنے لگے
I AM AN OUTSTANDING MUSLIM. WHEN PEOPLE GO INSIDE THE MOSQUE, I STAND OUTSIDE
سچی بات یہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں کے اعمال دیکھتے ہیں، ہم ان کے دلوں کا حال نہیں جانتے۔